زندگی اطمینان سکون سے گزرے ( قندیل شاہد‘ ڈی جی خان)
چھوٹے بڑے کئی چوہے بھاگے پھر رہے تھے۔ چوہیاں زرق کپڑے پہنے ہوئے تھیں کیونکہ آج چمنی کا ولیمہ تھا۔ چمنی بڑا پیارا اور خوبصورت چوہا تھا۔ وہ اپنی آٹھ بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا تمام خاندان پورے زور و شور سے اس کی شادی کی خوشیوں میں شریک تھا
آپ نے میری بہت سی حیرت انگیز اور ذہانت بھری کہانیاں شائع کیں مجھے بے حد خوشی ہوئی آج میں آپ کو ذہانت پر مبنی حیرت انگیز اور سبق آموز سچی کہانیاں سنارہا ہوں۔
ایک بادشاہ نے اپنے ملک میں اعلان کروایا کہ جو شخص جھوٹ بولتا ہوا پایا گیا ‘قاضی سے پوچھ کر اسے سخت سزا دی جائے گی۔ اعلان کا سننا تھا کہ لوگ ایک دوسرے سے بھاگنے لگے کہ کہیں جھوٹ کے الزام میں پکڑے نہ جائیں۔ بادشاہ اور وزیر دونوں بھیس بدل کر شہر میں گھومنے نکلے، ایک تاجر کے پاس سے ان کا گزر ہوا تو رک کر اس سے گپ شپ شروع کی۔
بادشاہ نے تاجر سے پوچھا۔ آپ کی عمر کیا ہے؟
تاجر نے جواب دیا بیس سال۔
آپ کے پاس دولت کتنی ہے؟ بادشاہ نے پوچھا۔
تاجر نے کہا ستر ہزار۔
آپ کے لڑکے کتنے ہیں؟ بادشاہ نے تیسرا سوال کیا۔
تاجر نے کہا ایک۔
بادشاہ اور وزیر نے واپس آکر دفتر میں ریکارڈ دیکھا تو تاجر کے جوابات کو غلط پایا اور تاجر کو طلب کرلیا۔ آپ نے اپنی عمر بیس سال بتائی جو غلط ہے آپ کی اب یہ سزا ہے۔
تاجر۔ پہلے میری غلطی تو ثابت کیجئے۔
بادشاہ نے کہا سرکاری دفتر میں آپ کی عمر 65 سال درج ہے
تاجر بولا۔ جناب میری زندگی کے بیس سال ہی اطمینان و سکون سے گزرے ہیں۔ اس لئے میں اِسی کو اپنی عمر سمجھتا ہوں۔ باقی سب فضول ہیں۔
پھر بادشاہ نے کہا، دولت بھی آپ نے غلط بتائی ہے۔ آپ کے پاس بے شمار دولت ہے جبکہ آپ کا کہنا ہے کہ آپ کے پاس صرف ستر ہزار ہیں۔
تاجر۔ میں نے ستر ہزار روپے مسجد کی تعمیر میں خرچ کئے اور میں اسی کو اپنی دولت سمجھتا ہوں جو آخرت میں میرے کام آجائے۔
بادشاہ نے کہا! بچوں کے متعلق بھی آ پ نے غلط کہا ہے۔ سرکاری رجسٹر میں آپ کے بچوں کی تعداد پانچ ہے جو آپ نے خود درج کرائی ہے۔
تاجر۔ جناب چار بچے نالائق، بداخلاق اور آوارہ اور بدچلن ہیں بس ایک بچہ اچھے اخلاق و کردار کا مالک ہے میں اسی بچے کو اپنی اولاد سمجھتا ہوں کہ آخرت کے اعتبار میں انشاءاللہ وہی میرے کام آئے گا۔
بادشاہ تاجر کے جوابات سن کر بہت خوش ہوا۔ اس نے تاجر سے کہا بے شک عمر وہی گننے کے لائق ہے جو اطمینان سے گزرے۔ دولت وہی گننے کے لائق ہے جو اللہ کی راہ میں خرچ ہوئی ہو اور وہی اولاد، اولاد کہلانے کے لائق ہے جس کے اعمال و اخلاق اچھے ہوں۔ طور و اطوار، نشست و برخاست اور چال چلن یہ سب چیزیں قابل ستائش اور اچھی ہوں۔
یہاں وہاں
خلیفہ ہارون رشید نے اپنے ایک نوکر کو بلایا اور اسے تین درہم دے کر کہا کہ جاﺅ ایک درہم یہاں اور وہاں، دوسرا یہاں نہ وہاں، تیسرا یہاں خرچ کرو۔
نوکر درہم لے کر چلا گیا۔ ایک مسجد تعمیر ہورہی تھی، اس نے ایک درہم دے دیا، آگے گیا تو ایک مداری تماشا دکھا رہا تھا اس نے ایک درہم دے دیا اور ایک درہم کے پھل لے آیا۔ واپس آکر اس نے خلیفہ ہارون رشید کو بتایا کہ ایک درہم اس نے مسجد کی تعمیر پر خرچ کیا جو آپ کو یہاں (دنیا) اور وہاں (آخرت) میں کام آئے گا۔ دوسرا میں نے مداری کو دیا جو آپ کو یہاں نہ وہاں کام آئے گا۔ تیسرے درہم کے میں پھل لے آیا جو آپ کو یہاں کام آئیں گے۔ خلیفہ ہارون رشید نوکر کی عقلمندی سے بہت خوش ہوئے اور اسے انعام و اکرام سے نوازا“۔
دل کو اللہ کے لئے فارغ رکھیں
حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں ایک طالب علم بہت دور دراز کا سفر کرکے حاضر ہوا۔ دیکھا، تو مالدار ہیں، نوابوں کے سے کارخانے ہیں، امیروں کی سی بارگاہ، نوکر چاکر، خادموں کی قطاریں۔
اس شخص نے اپنے دل میں کہا کہ یہاں اللہ کا ذکر کیا ہوتا ہوگا بہرکیف چونکہ وہ شخص دور سے آیا تھا، اس لئے قیام کیا، دونوں وقت شیخ کی خدمت میں جاتا، ایک روز شیخ کے نام کسی خادم کا خط آیا کہ فلاں جہاز جس پر لاکھ روپے کا مال تجارت کو جاتا تھا، ڈوب گیا۔ یہ سن کر شیخ نے فرمایا ”الحمدللہ“ پھر چند روز بعد اسی خادم کا خط آیا کہ وہ جہاز جو مال تجارت لے کر ڈوبا تھا نکل آیا اور مال کو بھی کچھ نقصان نہیں پہنچا۔ شیخ نے یہ سن کر فرمایا”الحمدللہ“ تب تو اس طالب سے رہا نہ گیا اور پوچھا ”اگر ارشاد ہو تو ایک شبہ عرض کروں“ فرمایا ”کہو“
اس نے عرض کیا کہ حضرت! یہ مال تجارت دوحال سے خالی نہیں۔ مال حلال ہے یا حرام۔ اگر حلال ہے تو اس کے تلف پر ”الحمدللہ“ کہنے کا کیا معنی؟ اور اگر حرام ہے تو اس کے بچ جانے پر شکر کیسا؟
شیخ نے مسکرا کر فرمایا ”مال تو حلال و طیب ہے، لیکن شکر نہ ضائع ہونے پر تھا، نہ ہی بچ جانے پر۔ جب مجھ کو تلف کی خبر ہوئی تو میں نے اپنے دل کی حالت پر نظر کی کہ دیکھوں اس نقصان نے دل پر کیا اثر پیدا کیا۔ غور کیا تو معلوم ہوا کہ دل پر مطلق اثر نہیں ہوا۔ پھر بچ جانے کے وقت بھی دل کا وہی حال پایا۔ پس میں نے دونوں حالتوں میں اس بات کا شکر ادا کیا کہ ”الحمدللہ“ دنیا کا نفع و نقصان میری نظر میں ہیچ ہے۔ بے شک دنیا کے تعلقات میں آلودہ رہ کر بے تعلق رہنا مردانِ حق کا کام ہے۔
Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 417
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں